إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
بے شک وہ لوگ جنھیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، کہتے ہیں تم کس کام میں تھے؟ وہ کہتے ہیں ہم اس سر زمین میں نہایت کمزور تھے۔ وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ تو یہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔
1- یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب وجوار میں مسلمان توہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑکر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمان کو دیا جا چکا تھا۔ اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم بتلایا گیا ہے۔ جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات وظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دار الکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ 2- یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب وجوار ہے اور آگے ”ارض اللہ“ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔