يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا
وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔
1- بعض علماء اسی آیت کی وجہ سے نماز استسقاء میں سورہ نوح کے پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی ایک مرتبہ نماز استسقاء کے لئے منبر پر چڑھے تو صرف آیات استغفار (جن میں یہ آیت بھی تھی) پڑھ کر منبر سے اتر آئے۔ اور فرمایا کہ میں نے بارش کو، بارش کے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں میں ہیں جن سے بارش زمین پر اترتی ہے (ابن کثیر) حضرت حسن بصری کے متعلق مروی ہے کہ ان سے آکر کسی نے قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اسے استغفار کی تلقین کی، کسی دوسرے شخص نے فقرو فاقہ کی شکایت کی، اسے بھی انہوں نے یہی نسخہ بتلایا۔ ایک اور شخص نے اپنے باغ کے خشک ہونے کا شکوہ کیا، اسے بھی فرمایا، استغفار کر۔ ایک شخص نے کہا، میرے گھر اولاد نہیں ہوتی، اسے بھی کہا اپنے رب سے استغفار کر۔ کسی نے جب ان سے کہا کہ آپ نے استغفار ہی کی تلقین کیوں کی؟ تو آپ نے یہی آیت تلاوت کرکے فرمایا، کہ میں نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں کی، یہ وہ نسخہ ہے جو ان سب باتوں کے لئے اللہ نے بتلایا ہے۔ (السیر التفاسیر)