سورة النسآء - آیت 46

مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ لوگ جو یہودی بن گئے، ان میں سے کچھ لوگ بات کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور کہتے ہیں سَمِعْنَا وَ عَصَيْنَا (ہم نے سنا اور نہیں مانا) اور إسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ (سن اس حال میں کہ تجھے نہ سنایا جائے) اور رَاعِنَا (ہماری رعایت کر) (یہ الفاظ) اپنی زبانوں کو پیچ دیتے ہوئے اور دین میں طعن کرتے ہوئے (کہتے ہیں) اور اگر وہ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا (ہم نے سنا اور مانا) اور إسْمَع وَ انْظُرْنَا (سن اور ہماری طرف دیکھ) کہتے تو یقیناً ان کے لیے بہتر اور زیادہ درست ہوتا اور لیکن اللہ نے ان پر ان کے کفر کی وجہ سے لعنت کی، پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر بہت کم۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہودیوں کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ہم نے سنا کے ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے یعنی اطاعت نہیں کریں گے۔ یہ دل میں کہتے یا اپنے ساتھیوں سے کہتے یا شوخ چشمانہ جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے منہ پر کہتے۔ اسی طرح ”غَيْرَ مُسْمَعٍ“ (تیری بات نہ سنی جائے) یہ بددعا کے طور پر کہتے یعنی تیری بات مقبول نہ ہو۔ ”رَاعِنَا“ کی بابت دیکھئے سورۃ البقرۃ آیت 104 کا حاشیہ۔ 2- یعنی ایمان لانے والے بہت ہی قلیل ہیں پہلے گزر چکا ہے کہ یہود میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ یا یہ معنی ہیں کہ بہت ہی کم باتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جب کہ ایمان نافع یہ ہے کہ سب باتوں پر ایمان لایا جائے۔