وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا یقیناً قریب ہیں کہ تجھے اپنی نظروں سے (گھور گھور کر) ضرور ہی پھسلا دیں، جب وہ ذکر کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یقیناً یہ تو دیوانہ ہے۔
1- یعنی اگر تجھے اللہ کی حمائت و حفاظت نہ ہوتی تو کفار کی حاسدانہ نظروں سے نظر بد کا شکار ہو جانا یعنی ان کی نظر تمہیں لگ جاتی۔ چنانچہ امام ابن کثیر نے یہ مفہوم بیان کیا، مزید لکھتے ہیں ' یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اس کا دوسروں پر، اللہ کے حکم سے، اثر انداز ہونا، حق ہے۔ جیسا کہ متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں اس سے بچنے کے لیے دعائیں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو ماشاء اللہ یا بارک اللہ کہا کرو تاکہ اسے نظر نہ لگے۔اسی طرح کسی کو نظر لگ جائے تو فرمایا ، اسے غسل کروا کے اس کا پانی اس شخص پر ڈالا جائے جس کو اس کی نظرلگی ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر اور کتب حدیث) اس کا مطلب یہ بیا کیا ہے کہ یہ تجھے تبلیغ رسالت سے پھیر دیتے۔ 2- یعنی حسد کے طور پر بھی اور اس غرض سے بھی کہ لوگ اس قرآن سے متاثر نہ ہوں بلکہ اس سے دور ہی رہیں آنکھوں کے ذریعے سے بھی یہ کفار نبی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے اور زبانوں سے بھی آپ کو دیوانہ کہہ کر ایذاء پہنچاتے اور آپ کے دل کو مجروح کرتے۔