سورة التحريم - آیت 1

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- نبی (ﷺ) نے جس چیز کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا، وہ کیا تھی؟ جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ (ﷺ) حضرت زینب بنت جحش (رضی الله عنہا) کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ (ﷺ)کو ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ (ﷺ) تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول! آپ (ﷺ) کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں بساند ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ (ﷺ) نے فرمایا، میں نے تو زینب (رضی الله عنہا)کے گھر صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔ صحیح بخاری۔ سنن نسائی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھی جس کو آپ (ﷺ)نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (سنن نسائی) جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں اس کی تفصیل دوسری کتابوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ (رضی الله عنہا)تھیں جن سے نبی (ﷺ) کے صاحبزادے ابراہیم (عليہ السلام)تولد ہوئے تھے، یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ (رضی الله عنہا)کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ (رضی الله عنہا) موجود نہیں تھیں اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ (رضی الله عنہا) آگئیں انہیں نبی (ﷺ) کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا۔ جسے نبی (ﷺ) نے بھی محسوس فرمایا جس پر آپ (ﷺ) نے حضرت حفصہ (رضی الله عنہا) کو راضی کرنے کے لیے قسم کھا کر ماریہ (رضی الله عنہا) کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور حفصہ (رضی الله عنہا) کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے امام ابن حجر ایک تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف طرق سے نقل ہوا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بیک وقت دونوں ہی واقعات اس آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔ فتح الباری۔ امام شوکانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے اور دونوں کو صحیح قرار دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے حتی کہ رسول اللہ (ﷺ) بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔