رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا
جو ایسا رسول ہے کہ تمھارے سامنے اللہ کی واضح بیان کرنے والی آیات پڑھتا ہے، تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے اور جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ، بلاشبہ اللہ نے اس کے لیے اچھا رزق بنایا ہے۔
1- رسول، ذکر سے بدل ہے، بطور مبالغہ رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا، جیسے کہتے ہیں، وہ تو مجسم عدل ہے۔ یا ذکر سے مراد قرآن ہے اور رسولاً سے پہلے أَرْسَلْنَا محذوف ہے یعنی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور رسول کو ارسال کیا۔ 2- یہ رسول کا منصب اور فریضہ بیان کیا گیا کہ وہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اخلاقی پستیوں سے شرک وضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وعمل صالح کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ رسول سے یہاں مراد الرسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں۔ 3- عمل صالح میں دونوں باتیں شامل ہیں، احکام وفرائض کی ادائیگی اور معصیات ومنہیات سے اجتناب۔ مطلب ہے کہ جنت میں وہی اہل ایمان داخل ہوں گے، جنہوں نے صرف زبان سے ہی ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق فرائض پر عمل اور معاصی سے اجتناب کیاتھا۔