يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں) لائیں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقیناً اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔
1- نبی (ﷺ) سے خطاب آپ کے شرف ومرتبت کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جارہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ (ﷺ) کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمُ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لو۔ 2- اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لِعِدَّتِهِنَّ میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی (لأوَّلِ یا لاسْتِقْبَالِ عِدَّتِهِنَّ) (عدت کے آغاز میں) طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کیے بغیر طلاق دو۔ حالت طہر اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اس کو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے (صحیح) طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر (رضی الله عنہ) نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ (ﷺ) غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا، اور اس کے لیے آپ (ﷺ) نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحيح بخاری، كتاب الطلاق) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی ، باوجود بدعی ہونے کے واقع ہو جائے گی۔ محدثین اور جمہور علما اسی بات کے قائل ہیں۔ البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے نيل الأوطار، كتاب الطلاق، باب النهي عن الطلاق في الحيض وفي الطهر اور دیگر شروحات حدیث)۔ 3- یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کرسکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کرسکو۔ 4- یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر میں ہی رہنے دو، اور اس وقت تک رہائش اور نان ونفقہ تمہاری ذمے داری ہے۔ 5- یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے، الایہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔ 6- یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بدزبانی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔ 7- یعنی احکام مذکورہ، اللہ کی حدیں ہیں، جن سے تجاوز خود اپنے آپ پر ہی ظلم کرنا ہے، کیونکہ اس کے دینی اور دنیوی نقصانات خود تجاوز کرنے والے کو ہی بھگتنے پڑیں گے۔ 8- یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کر دے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے، جیسا کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی لیےبعض مفسرین کی رائے ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک طلاق دینے کی تلقین اور بیک وقت تین طلاقیں دینے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اگر وہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دے (اور شریعت اسے جائز قرار دے کر نافذ بھی کر دے) تو پھر یہ کہنا بےفائدہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ (فتح القدیر) اسی سے امام احمد اور دیگر بعض علما نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ رہائش اور نفقے کی جو تاکید کی گئی ہے وہ ان عورتوں کے لیے ہے جن کو ان کے خاوندوں نے پہلی یا دوسری طلاق دی ہو۔ کیونکہ ان میں خاوند کے رجوع کا حق برقرار رہتا ہے۔ اور جس عورت کو مختلف اوقات میں دو طلاقیں مل چکی ہوں تو تیسری طلاق اس کے لیے طلاق بتہ یا بائنہ ہے، اس کا سُكْنَى (رہائش) اور نفقہ خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ اس کو فوراً خاوند کے مکان سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا، کیونکہ خاوند اب اس سے رجوع کرکے اسے اپنے گھر آباد نہیں کرسکتا ﴿حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ اس لیے اب اسے خاوند کے پاس رہنے کا اور اس سے نان ونفقہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کی تائید حضرت فاطمہ بنت قیس (رضی الله عنہا) کے اس واقعے سے ہوتی ہے کہ جب ان کے خاوند نے ان کو تیسری طلاق بھی دے دی اور اس کے بعد انھیں خاوند کے مکان سے نکلنے کے لیے کہا گیا تو وہ آمادہ نہیں ہوئی بالآخر معاملہ رسول اللہ (ﷺ) کے پاس پہنچا تو آپ (ﷺ) نے یہی فیصلہ فرمایا کہ ان کے لیے رہائش اور نفقہ نہیں ہے، انھیں فوراً کسی دوسری جگہ منتقل ہو جانا چاہیے۔ بلکہ بعض روایات میں صراحت بھی ہے،[ إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ؛ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ] رواه أحمد والنسائی۔ البتہ بعض روایات میں حاملہ عورت کے لیے بھی نفقہ اور رہائش کی صراحت ہے۔ (تفصیل اور حوالوں کے لیے دیکھئے: نيل الأوطار، باب ما جاء في نفقة المبتوتة وسكناها وباب النفقة والسكنى للمعتدة الرجعية) بعض لوگ ان روایات کو قرآن کے مذکورہ حکم ﴿لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ﴾ کے خلاف باور کرا کے ان کو رد کر دیتے ہیں جو صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن کا حکم اپنے گرد وپیش کے قرائن کے پیش نظر مطلقہ رجعیہ سے متعلق ہے۔ اور اگر اسے عام مان بھی لیا جائے تو یہ روایات اس کی مخصص ہیں یعنی قرآن کے عموم کو ان روایات نے مطلقہ رجعیہ کے لیے خاص کر دیا اور مطلقہ بائنہ کو اس عموم سے نکال دیا ہے۔