يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
جس دن وہ تمھیں جمع کرنے کے دن کے لیے جمع کرے گا، وہی ہار جیت کا دن ہے اور جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
1- قیامت کو یوم الجمع اس لیے کہا کہ اس دن اول وآخر سب ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے۔ فرشتہ پکارے گا تو سب اس کی آواز سنیں گے، ہر ایک کی نگاہ آخر تک پہنچ جائے گی، کیونکہ درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہوگی۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ﴾ (هود: 103) ”وہ دن جس میں سب لوگ جمع کیے جائیں گے اور وہ ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کیے جائیں گے“۔ ﴿قُلْ إِنَّ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ﴾ (الواقعہ: 49-50)۔ 2- یعنی ایک گروہ جیت جائے گا اور ایک ہار جائے گا، اہل حق اہل باطل پر ، ایمان والے اہل کفر پر اور اہل طاعت اہل معصیت پر جیت جائیں گے، سب سے بڑی جیت اہل ایمان کو یہ حاصل ہوگی کہ وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے اور وہاں ان گھروں کے بھی وہ مالک بن جائیں گے جو جہنمیوں کے لیے تھے۔ اگر وہ جہنم میں جانے والے کام نہ کرتے۔ اور سب سے بڑی ہار جہنمیوں کے حصے میں آئے گی جو جہنم میں داخل ہوں گے، جنہوں نے خیر کو شر سے، عمدہ چیز کو ردی سے اور نعمتوں کو عذاب سے بدل لیا۔ غبن کے معنی نقصان اور خسارے کے بھی ہیں، یعنی نقصان کا دن۔ اس دن کافروں کو تو خسارے کا احساس ہوگا ہی۔ اہل ایمان کو بھی اس اعتبار سے خسارے کا احساس ہوگا کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کرکے مزید درجات کیوں نہ حاصل کیے۔