زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کیا کہ وہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ کہہ دے کیوں نہیں؟ میرے رب کی قسم! تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر تمھیں ضرور بالضرور بتایا جائے گا جو تم نے کیا اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
1- یعنی یہ عقیدہ کہ قیامت والے دن دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے، یہ کافروں کا محض گمان ہے، جس کی پشت پر دلیل کوئی نہیں۔ زعم کا اطلاق کذب پر بھی ہوتا ہے۔ 2- قرآن مجید میں تین مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر یہ اعلان کرے کہ اللہ تعالیٰ ضرور دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ ان میں سے ایک یہ مقام ہے اس سے قبل ایک مقام سورۂ یونس، آیت 53 اور دوسرا مقام سورۂ سبا، آیت 3 ہے۔ 3- یہ وقوع قیامت کی حکمت ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو کیوں دوبارہ زندہ کرےگا؟ اس لیے تاکہ وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کی پوری جزا دی جائے۔ کیونکہ دنیا میں ہم دیکھتے کہ یہ جزا مکمل شکل میں بالعموم نہیں ملتی۔ نیک کو نہ بد کو۔ اب اگر قیامت والے دن بھی مکمل جزا کا اہتمام نہ ہو تو دنیا ایک کھلنڈرے کا کھیل اور فعل عبث ہی قرار پائے گی، جب کہ اللہ کی ذات ایسی باتوں سے بہت بلند ہے۔ اس کا تو کوئی فعل عبث نہیں، چہ جائیکہ جن وانس کی تخلیق کو بےمقصد اور ایک کھیل سمجھ لیا جائے۔ (تَعَالَى اللهُ عَنْ ذَلِكَ عُلُوًّا كَبِيرًا)۔ 4- یہ دوبارہ زندگی ، انسانوں کو کتنی ہی مشکل یا مستبعد نظر آتی ہو ، لیکن اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔