يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کو دوست مت بناؤ جن پر اللہ غصے ہوگیا، جو آخرت سے اسی طرح ناامید ہوچکے ہیں جس طرح وہ کافر ناامید ہوچکے ہیں جو قبروں والے ہیں۔
1- اس سے بعض نے یہود، بعض نے منافقین اور بعض نے تمام کافر مراد لیے ہیں۔ یہ آخری قول ہی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اس میں یہود ومنافقین بھی آجاتے ہیں، علاوہ ازیں سارے کفار ہی غضب الٰہی کے مستحق ہیں، اس لیے مطلب یہ ہوگا کہ کسی بھی کافر سے دوستانہ تعلق مت رکھو، جیسا کہ یہ مضمون قرآن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ 2- آخرت سے مایوس ہونے کا مطلب، قیامت کے برپا ہونے سے انکار ہے۔ اصحاب القبور (قبروں میں مدفون لوگوں) سے مایوس ہونے کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ آخرت میں دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔ ایک دوسرے معنی اس کے یہ کیے گئے ہیں کہ قبروں میں مدفون کافر، ہر قسم کی خیر سے مایوس ہوگئے۔ کیونکہ مرکر انہوں نے اپنے کفر کا انجام دیکھ لیا، اب وہ خیر کی کیا توقع کرسکتے ہیں؟ (ابن جریر طبری)۔