لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو یقیناً تو اسے اللہ کے ڈر سے پست ہونے والا، ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا دیکھتا۔ اور یہ مثالیں ہیں، ہم انھیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ غور وفکر کریں۔
1- اور پہاڑ میں فہم وادراک کی وہ صلاحیت پیدا کر دیتے جو ہم نے انسان کے اندر رکھی ہے۔ 2- یعنی قرآن کریم میں ہم نے بلاغت وفصاحت ، قوت واستدلال اور وعظ تذکیر کے ایسے پہلو بیان کیے ہیں کہ انہیں سن کر پہاڑ بھی، باوجود اتنی سختی اور وسعت وبلندی کے ، خوف الٰہی سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ یہ انسان کو سمجھایا اور ڈرایا جارہا ہے کہ تجھے عقل وفہم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ لیکن اگر قرآن سن کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا تو تیرا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ 3- تاکہ قرآن کے مواعظ سے وہ نصیحت حاصل کریں اور زواجر کو سن کر نافرمانیوں سے اجتناب کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں نبی (ﷺ) سے خطاب ہے کہ ہم نے آپ (ﷺ) پر یہ قرآن مجید نازل کیا جو ایسی عظمت شان کا حامل ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا، لیکن یہ آپ (ﷺ) پر ہمارا احسان ہے کہ ہم نے آپ (ﷺ) کو اتنا قوی اور مضبوط کر دیا کہ آپ (ﷺ) نے اس چیز کو برداشت کر لیا جس کو برداشت کرنے کی طاقت پہاڑوں میں بھی نہیں ہے۔ (فتح القدیر) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی صفات بیان فرما رہا ہے جس سے مقصود توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے۔