سورة النسآء - آیت 24

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں) مگر وہ (لونڈیاں) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں، یہ تم پر اللہ کا لکھا ہوا ہے اور تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو، اس حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے۔ پھر وہ جن سے تم ان عورتوں میں سے فائدہ اٹھاؤ، پس انھیں ان کے مہر دو، جو مقرر شدہ ہوں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مقرر کرلینے کے بعد آپس میں راضی ہوجاؤ، بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* قرآن کریم میں ”إِحْصَانٌ“ چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ (1) شادی (2) آزادی (3) پاک دامنی (4) اور اسلام۔ اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں (1) شادی شدہ عورتیں (2) آزاد عورتیں (3) پاک دامن عورتیں (4) اور مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے۔ اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔ صحابہ (رضي الله عنهم) نے نبی (ﷺ) سے پوچھا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں، جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں تو شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے۔ البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ: نزول قرآن کے وقت غلام اور لونڈی کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا، البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس کے دو ذریعے تھے۔ ایک توبعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کر دیئے جاتے تھے۔ یہی خریدے ہوئے مرد وعورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے۔ مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا۔ دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا، کہ کافروں کی قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اوروہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں۔ قیدیوں کے لئے یہ بہترین حل تھا۔ کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یوں ہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہر حاصل مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الاّ یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں۔ اس صورت میں استبرائے رحم کے بعد وہ ان کے لئے حلال ہیں۔ ** یعنی مذکورہ محرمات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں، اول یہ کہ طلب کرو ”أَنْ تَبْتَغُوا“ یعنی دونوں طرف سے ایجاب وقبول ہو۔ دوسری یہ کہ مال یعنی مہر ادا کرنا قبول کرو، تیسری یہ کہ ان کو شادی کی قید (دائمی قبضے) میں لانا مقصود ہو۔ صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعوں میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکین کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح )۔ چوتھی یہ کہ چھپی یاری دوستی نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو۔ یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں۔ اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کی دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفاً یہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معہود ذہنی ہے۔ *** یہ اس امرکی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی کے ذریعے سے استمتاع اور تلذذ کرو۔ انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ **** اس میں آپس کی رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ملحوظة: استمتاع کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی (ﷺ) نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک کے لئے حرام کر دیا۔