حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
حرام کی گئیں تم پر تمھاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں اور تمھاری بہنیں اور تمھاری پھوپھیاں اور تمھاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو اور تمھاری دودھ شریک بہنیں اور تمھاری بیویوں کی مائیں اور تمھاری پالی ہوئی لڑکیاں، جو تمھاری گود میں تمھاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری پشتوں سے ہیں اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو، مگر جو گزر چکا۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
* جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، ان کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسب، سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں، رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، ربائب (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکیاں) بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے۔ ان کے علاوہ باپ کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے۔ محرمات نسبی کی تفصیل! أُمَّهَاتٌ (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں۔ بَنَاتٌ (بیٹیاں) میں پوتیاں، نواسیاں اور پوتیوں،نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں۔ زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی، بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔ البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ بنت شرعی نہیں ہے۔ پس جس طرح ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ﴾ (اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالا جماع وہ وارث نہیں۔ اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر)۔ أَخَوَاتٌ (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی وعلاتی، عَمَّاتٌ (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں خالاتٌ( خالائیں) اس میں ماں کی سب مونث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کی بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی وفرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں، اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ وبلاواسطہ یا صلبی وفرعی شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ: رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی دو سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جس کو تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا تم سے پہلے یا بعد تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یاجس عورت کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا، چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جائینگے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی ورضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں، اور اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا تایا بن جائیں گے اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہوں گے۔ قسم سوم سسرالی محرمات: بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے) اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو، تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا، البتہ کسی عورت سے نکاح کرکے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) رَبِيبَةٌ بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اس کی حرمت مشروط ہے یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کر لی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام، بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فِي حُجُورِكُمْ (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے، بطور شرط کے نہیں ہے۔ اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حَلِيلَةٌ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) سے فَعِيلَةٌ کے وزن پر بمعنی فَاعِلَةٍ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے۔ بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی ان کی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا۔ اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے مِنْ أَصْلابِكُمْ (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے۔ دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے۔ البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چار بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔ ملحوظة: زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اس کی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کر لے گا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی (دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اول الذکر مسلک کی تائید بعض احادیث سے ہوتی ہے۔