يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم رسول سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ پیش کرو، یہ تمھارے لیے زیادہ اچھا اور زیادہ پاکیزہ ہے، پھر اگر نہ پاؤ تو یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
* ہر مسلمان نبی سے مناجات اور خلوت میں گفتگو کرنے کی خواہش رکھتا تھا، جس سے نبی (ﷺ) کو خاصی تکلیف ہوتی۔ بعض کہتے ہیں کہ منافقین یوں ہی بلا وجہ نبی (ﷺ) سے مناجات میں مصروف رہتے تھے، جس سے مسلمان تکلیف محسوس کرتے تھے ، اس لیے اللہ نے یہ حکم نازل فرما دیا، تاکہ آپ (ﷺ) سے گفتگو کرنے کے رجحان عام کی حوصلہ شکنی ہو۔ ** بہتر اس لیے کہ صدقے سے تمہارے ہی دوسرے غریب مسلمان بھائیوں کو فائدہ ہوگا اور پاکیزہ تر اس لیے کہ یہ ایک عمل صالح اور اطاعت الٰہی ہے جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ امر بطور استحباب کے تھا، وجوب کے لیے نہیں۔