وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ
اور تھوڑے سے پچھلوں سے ہوں گے۔
1- ثُلَّةٌ، اس بڑے گروہ کو کہا جاتا ہے جس کا گننا ناممکن ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اولین سےمراد حضرت آدم (عليہ السلام) سے لے کر نبی (ﷺ) تک کی امت کےلوگ ہیں اور آخرین سے امت محمدیہ کے افراد۔ مطلب یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں سابقین کا ایک بڑا گروہ ہے، کیونکہ ان کا زمانہ بہت لمبا ہے جس میں ہزاروں انبیا کے سابقین شامل ہیں ان کے مقابلے میں امت محمدیہ کا زمانہ (قیامت تک) تھوڑا ہے، اس لیے ان میں سابقین بھی بہ نسبت گزشتہ امتوں کے تھوڑے ہوں گے۔ اور ایک حدیث میں آتا ہے۔ جس میں نبی (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کا نصف ہو گے (صحیح مسلم، نمبر 200) تو یہ آیت کے مذکورہ مفہوم کےمخالف نہیں۔ کیونکہ امت محمدیہ کہ سابقین اور عام مومنین ملا کر باقی تمام امتوں سے جنت میں جانے والوں کا نصف ہو جائیں گے، اس لیے محض سابقین کی کثرت (سابقہ امتوں میں) سے حدیث میں بیان کردہ تعداد کی نفی نہیں ہو گی۔ مگریہ قول محل نظر ہے اور بعض نے اولین وآخرین سے اسی امت محمدیہ کے افراد مراد لیے ہیں۔ یعنی اس کے پہلے لوگوں میں سابقین کی تعداد زیادہ اور پچھلے لوگوں میں تھوڑی ہوگی۔ امام ابن کثیر نے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ اوریہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے یہ جملہ معترضہ ہے، ﴿فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ﴾ اور ﴿عَلَى سُرُرٍ مَوْضُونَةٍ﴾ کے درمیان۔