الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
جنھوں نے کہا بے شک اللہ نے ہمیں تاکیدی حکم دیا ہے کہ ہم کسی رسول کی بات کا یقین نہ کریں، یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لائے جسے آگ کھا جائے، کہہ دے بے شک مجھ سے پہلے کئی رسول تمھارے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ چیز لے کر بھی جو تم نے کہی ہے، پھر تم نے انھیں کیوں قتل کیا، اگر تم سچے تھے۔
1- اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی وصدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (ﷺ) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے بحکم الٰہی آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے کہ جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے؟“۔