لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
بلا شبہ یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ تم مسجد حرام میں ضرور بالضرور داخل ہو گے، اگر اللہ نے چاہا، امن کی حالت میں، اپنے سر منڈاتے ہوئے اور کتراتے ہوئے، ڈرتے نہیں ہوگے، تو اس نے جانا جو تم نے نہیں جانا تو اس نے اس سے پہلے ایک قریب فتح رکھ دی۔
1- واقعہ حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ (ﷺ) کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف وعمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نبی کا خواب بھی بمنزلۂ وحی ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس خواب میں یہ تعیین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا، لیکن نبی (ﷺ) اور مسلمان، اسے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرےکے لئے فوراً آمادہ ہوگئے اور اس کے لئے عام منادی کرا دی گئی اور چل پڑے۔ بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی، جس کی تفصیل ابھی گزری، دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی، جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نے نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ 2- یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکے میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا، صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔ 3- اس سے فتح خیبر وفتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجےمیں جو بہ کثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے، کیونکہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے، اس کے دو سال بعد جب مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔