إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
جب ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے دلوں میں ضد رکھ لی، جو جاہلیت کی ضد تھی تو اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اتار دی اور انھیں تقویٰ کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے لائق تھے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
1- إِذْ کا ظرف یا تو لَعَذَّبْنَا سے یا وَاذْكُرُوا محذوف ہے۔ یعنی اس وقت کو یاد کرو، جب کہ ان کافروں نے۔۔۔ 2- کفار کی اس حمیت جاہلیہ (عار اور غرور) سے مراد اہل مکہ کا مسلمانوں کو مکے میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمارے بیٹوں اور باپوں کو قتل کیا ہے۔ لات وعزیٰ کی قسم ہم انہیں کبھی داخل نہیں ہونے دیں گے یعنی انہوں نےاسے اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا لیا، اسی کو حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے، کیونکہ خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے آنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں تھا۔ قریش مکہ کے اس معاندانہ رویے کے جواب میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے جذبات میں بھی شدت آجاتی اور وہ بھی اسے اپنےوقار کا مسئلہ بنا کر مکے جانے پر اصرار کرتے، جس سے دونوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی، اور یہ لڑائی مسلمانوں کے لئے سخت خطرناک رہتی (جیسا کہ پہلےاشارہ کیا جا چکا ہے) اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کےدلوں میں سکینت نازل فرما دی یعنی انہیں صبر وتحمل کی توفیق دے دی اور وہ پیغمبر(ﷺ) کے ارشاد کے مطابق حدیبیہ میں ہی ٹھہرے رہےجوش اور جذبے میں آکر مکے جانے کی کوشش نہیں کی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس حمیت جاہلیہ سے مراد قریش مکہ کا وہ رویہ ہے جو صلح کے لئے معاہدے کے وقت انہوں نے اختیار کیا۔ یہ رویہ اور معاہدہ دونوں مسلمانوں کے لئے بظاہر ناقابل برداشت تھا۔ لیکن انجام کے اعتبار سےچونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہترین مفاد تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو نہایت ناگواری اور گرانی کے باوجود اسے قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما دیا۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔ کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نےقریش مکہ کے بھیجےہوئے نمائندوں کی یہ بات تسلیم کر لی کہ اس سال مسلمان عمرے کے لئے مکہ نہیں جائیں گے اور یہیں سے واپس ہو جائیں گے تو پھر آپ (ﷺ) نے حضرت علی (رضی الله عنہ) کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے آپ (ﷺ) کے حکم سے، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھی، انہوں نے اس پر اعتراض کر دیا کہ رحمٰن، رحیم کو ہم نہیں جانتے۔ ہمارے ہاں جو لفظ استعمال ہوتا ہے، اس کے ساتھ یعنی [بِاسْمِكَ اللَّهُمّ]َ (اے اللہ ! تیرے نام سے) لکھیں چنانچہ آپ (ﷺ) نے اسی طرح لکھوایا۔ پھر آپ (ﷺ) نےلکھوایا یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ (ﷺ) نے اہل مکہ سے مصالحت کی ہے قریش کے نمائندوں نے کہا، اختلاف کی بنیاد تو آپ (ﷺ) کی رسالت ہی ہے، اگر ہم آپ (ﷺ) کو رسول اللہ مان لیں تو اس کے بعد جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے؟ پھر ہمیں آپ (ﷺ) سے لڑنے کی اور بیت اللہ میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آپ ﹲ یہاں محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھیں۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی (رضی الله عنہ) کو ایسا ہی لکھنے کا حکم دیا۔ (یہ مسلمانوں کے لئے نہایت اشتعال انگیز صورت حال تھی، اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سکینت نازل نہ فرماتا تو وہ کبھی سے برداشت نہ کرتے) حضرت علی (رضی الله عنہ) نے اپنےہاتھ سے محمد رسول اللہ کے الفاظ مٹانے اور کاٹنے سے انکار کر دیا، تو نبی کریم (ﷺ) نے کہا کہ یہ لفظ کہاں ہے؟ بتانے کے بعد خود آپ (ﷺ) نے اپنے دست مبارک سے مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ تحریر کرنے کو فرمایا۔ اس کے بعد اس معاہدے یا صلح نامے میں تین باتیں لکھیں گئیں۔ 1۔ اہل مکہ میں سےجو مسلمان ہو کر آپ کےپاس آئے گا، اسے واپس کر دیا جائے گا۔ 2 - جو مسلمان اہل مکہ سے جا ملے گا، وہ اس کو واپس کرنے کا پابند نہیں ہوں گے۔ 3 - مسلمان آئندہ سال مکے میں ائیں گے اور یہاں تین دن قیام کر سکیں گے، تاہم انہیں ہتھیار ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ (صحيح مسلم، كتاب الجهاد، باب صلح الحديبية في الحديبية) اور اس کے ساتھ دو باتیں اور لکھی گئیں۔ 1۔ اس سال لڑائی موقوف رہے گی۔ 2 - قبائل میں سے جو چاہے مسلمانوں کے ساتھ اور جو چاہے قریش کے ساتھ ہو جائے۔ 3- اس سے مراد کلمۂ توحید ورسالت ( لا إِلَهَ إِلا اللهَ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ) ہے، جس سے حدیبیہ والے دن مشرکین نے انکار کیا (ابن کثیر) یا وہ صبر ووقار ہےجس کا مظاہرہ انہوں نے حدیبیہ میں کیا یا وہ وفائے عہد اور اس پر ثبات ہے جو تقویٰ کا نتیجہ ہے۔ (فتح القدیر)