هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تمھیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی، اس حال میں کہ وہ اس سے روکے ہوئے تھے کہ اپنی جگہ تک پہنچیں۔ اور اگر کچھ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں جنھیں تم نہیں جانتے تھے (اگر یہ نہ ہوتا) کہ تم انھیں روند ڈالو گے تو تم پر لا علمی میں ان کی وجہ سے عیب لگ جائے گا (تو ان پر حملہ کردیا جاتا) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے، اگر وہ (مومن اور کافر) الگ الگ ہوگئے ہوتے تو ہم ضرور ان لوگوں کو جنھوں نے ان میں سے کفر کیا تھا، سزا دیتے، دردناک سزا۔
1- هَدْيٌ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر (عمرہ کرنے والے) اپنے ساتھ مکے لے جاتا تھا۔ یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا تھا مَحِلٌّ (حلال ہونے کی جگہ) سے مراد وہ قربان گاہ ہے جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں۔ یہ مقام معتمر کے لئےمروہ پہاڑی کے پاس اور حاجیوں کے لئے منیٰ تھا۔ اور اسلام میں ذبح کرنے کی جگہ مکہ منیٰ اور پورے حدود حرم ہیں۔ مَعْكُوفًا، حال ہے۔ یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکے میں داخل ہوں تاکہ انہیں قربان کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں بھی مسجد حرام سے روکا اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے، انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا۔ 2- یعنی مکے میں اپنا ایمان چھپائےرہ رہے تھے۔ 3- کفار کے ساتھ لڑائی کی صورت میں ممکن تھاکہ یہ بھی مارےجاتے اور تمہیں ضرر پہنچتا مَعَرَّةٌ کے اصل معنی عیب کےہیں۔ یہاں مراد کفارہ اور وہ برائی اور شرمندگی ہے جو کافروں کی طرف سے تمہیں اٹھانی پڑتی۔ یعنی ایک تو قتل خطاکی دیت دینی پڑتی اور دوسرے، کفار کا یہ طعنہ سہنا پڑتا کہ یہ اپنے مسلمان ساتھیوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ 4- یہ لَوْلا کا محذوف جواب ہے۔ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں مکے میں داخل ہونے کی اور قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دی جاتی۔ 5- بلکہ اہل مکہ کو مہلت دے دی گئی تاکہ جس کو اللہ چاہے قبول اسلام کی توفیق دے دے۔ 6- تَزَيَّلُوا بمعنی تَمَيَّزُوا ہے مطلب یہ ہے کہ مکےمیں آباد مسلمان، اگر کافروں سے الگ رہائش پذیر ہوتے، تو ہم تمہیں اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہارے ہاتھوں ان کو قتل کرواتے اور اس طرح انہیں دردناک سزا دیتے۔ عذاب الیم سے مراد یہاں قتل، قیدی بنانا اور قہر وغلبہ ہے۔