لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
بلاشبہ یقیناً اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کردی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔
1- یہ ان اصحاب بیعت رضوان کے لئے رضائے الٰہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے، جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریش مکہ سے لڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ 2- یعنی ان کے دلوں میں جو صدق وصفا کے جذبات تھے، اللہ ان سے بھی واقف ہے۔ اس سے ان دشمنان صحابہ (رضی الله عنہم) کا رد ہو گیا جو کہتے ہیں کہ ان کا ایمان ظاہری تھا، دل سے وہ منافق تھے۔ 3- یعنی وہ نہتے تھے، جنگ کی نیت سے نہیں گئے تھے، اس لئے جنگی ہتھیار مطلوبہ تعداد میں نہیں تھے۔ اس کے باوجود جب نبی (ﷺ) نے حضرت عثمان (رضی الله عنہ) کا بدلہ لینے کے لئے ان سے جہاد کی بیعت لی تو بلا ادنیٰ تامل، سب لڑنے کے لئے تیار ہوگئے، یعنی ہم نے موت کا خوف ان کےدلوں سے نکال دیا اور اس کی جگہ صبر وسکینت ان پر نازل فرما دی جس کی بنا پر انہیں لڑنے کا حوصلہ ہوا۔ 4- اس سے مراد وہی فتح خیبر ہے جو یہودیوں کا گڑھ تھا، اور حدیبیہ سے واپسی پر مسلمانوں نے اسے فتح کیا۔