سورة الفتح - آیت 11

سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

عنقریب بدویوں میں سے پیچھے چھوڑ دیے جانے والے تجھ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور ہمارے گھر والوں نے ہمیں مشغول رکھا، سو تو ہمارے لیے بخشش کی دعا کر۔ وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔ کہہ دے پھر کون ہے جو اللہ سے تمھارے لیے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو، اگر وہ تمھارے بارے میں کسی نقصان کا ارادہ کرے، یا وہ تمھارے ساتھ کسی فائدے کا ارادہ کرے، بلکہ اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پورا باخبر ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے، غفار، مزینہ، جہینہ، اسلم اور دئل مراد ہیں۔ جب نبی (ﷺ) نےخواب دیکھنے کے بعد (جس کی تفصیل آگے آئے گی) عمرے کے لئے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی۔ مذکورہ قبلیوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لئے پورے طورپر ہتھیار بندہو کر بھی نہیں جا سکتے۔ اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے؟ اس وقت مکے جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ آپ (ﷺ) کے ساتھ عمرے کے لئے نہیں گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغولیوں کا عذر پیش کرکے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے۔ 2- یعنی زبانوں پرتو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لئے ہمیں خود ہی رکنا پڑا، لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا، نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا۔ 3- یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلے تو کیا تم میں سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ 4- یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے۔ تو کوئی روک سکتا ہے؟ یہ دراصل مذکورہ متخلفین (پیچھے رہ جانے والوں) کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ وہ اگر نبی (ﷺ) کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے۔ حالانکہ نفع وضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ 5- یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔