سورة آل عمران - آیت 169

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تو ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے، ہرگز مردہ گمان نہ کر، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- شہدا کی یہ زندگی حقیقی ہے یا مجازی، یقیناً حقیقی ہے لیکن اس کا شعور اہل دنیا کو نہیں جیسا کہ قرآن نے وضاحت کر دی ہے۔ ملاحظہ ہو (سورۂ بقرۃ آیت نمبر 154) پھر اس زندگی کا مطلب کیا ہے ؟ بعض کہتے ہیں قبروں میں ان کی روحیں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہاں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جنت کے پھلوں کی خوشبوئیں انہیں آتی ہیں۔ جس سے ان کے مشام جان معطر رہتے ہیں۔ لیکن حدیث سے ایک تیسری شکل معلوم ہوتی ہے اس لئے وہی صحیح ہے، وہ یہ کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کر دی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں (فتح القدیر بحوالہ صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)