سورة الأحقاف - آیت 8

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے، کہہ دے اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم میرے لیے اللہ کے مقابلے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے، وہ ان باتوں کو زیادہ جاننے والا ہے جن میں تم مشغول ہوتے ہو، وہی میرے درمیان اور تمھارے درمیان گواہ کے طور پر کافی ہے اور وہی بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* اس حق سے مراد، جو ان کےپاس آیا، قرآن کریم ہے، اس کے اعجاز اور قوت تاثیر کو دیکھ کر وہ اسے جادو سے تعبیر کرتے، پھر اس سے بھی انحراف کرکے یا اس سے بھی بات نہ بنتی تو کہتے کہ یہ تو محمد (ﷺ) کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہے۔ ** یعنی اگر تمہاری یہ بات صحیح ہو کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے، پھر تو یقیناً میں بڑا مجرم ہوں، اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا۔ اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو پھر سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرنا۔ بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الٰہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا۔ اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقَاوِيلِ ، لأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ،فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ﴾ (الحاقہ ،44۔ 47)۔ *** یعنی جس جس انداز سے بھی تم قرآن کی تکذیب کرتے ہو، کبھی اسے جادو، کبھی کہانت اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ یعنی وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا۔ **** وہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور وہی تمہاری تکذیب ومخالفت کا بھی گواہ ہے۔ اس میں بھی ان کے لئے سخت وعید ہے۔ ***** اس کے لئے جو توبہ کرلے، ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا کلام مان لے۔ مطلب ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کرکے اللہ کی مغفرت ورحمت کے مستحق بن جاؤ۔