سورة آل عمران - آیت 153

إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب تم دور چلے جاتے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول تمھاری پچھلی جماعت میں تمھیں بلا رہا تھا تو اس نے بدلے میں تمھیں غم کے ساتھ اور غم دیا، تاکہ تم نہ اس پر غمزدہ ہو جو تمھارے ہاتھ سے نکل گیا اور نہ اس پر جو تمھیں مصیبت پہنچی اور اللہ اس کی پوری خبر رکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- کفار کے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اورمسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی۔ یہ اس کا نقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ تُصْعِدُونَ إِصْعَادٌ سے ہے جس کے معنی اپنی رو بھاگے جانے یا وادی کی طرف چڑھے جانے یا بھاگنے کے ہیں۔ (طبری ) 2- نبی (ﷺ) اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے۔ [ إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! ]، ”اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ“۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا؟۔ 3- فَأَثَابَكُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا غَمًّا بِغَمٍّ بمعنی غَمًّا علی غَمٍّ ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد ہے، مال غنیمت اور کفار پر فتح وظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی (ﷺ) کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ (ﷺ) کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔ 4- یعنی یہ غم پر غم اس لئے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم وحوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔