وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ
اور بلاشبہ وہ یقیناً تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے ایک نصیحت ہے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔
1- اس تخصیص کا یہ مطلب نہیں کہ دوسروں کے لیے نصیحت نہیں۔ بلکہ اولین مخاطب چونکہ قریش تھے، اس لیے ان کا ذکر فرمایا، ورنہ قرآن تو پورے جہان کے لیے نصیحت ہے۔ ﴿وَمَا هُوَ إِلا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ﴾ (سورة القلم : 52) جیسے آپ کو حکم دیا گیا کہ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کا پیغام صرف رشتے داروں کو ہی پہنچانا ہے۔ بلکہ مطلب ہے تبلیغ کی ابتدا اپنے ہی خاندان سے کریں بعض نے یہاں ذکر بمعنی شرف لیا ہے۔ یعنی یہ قرآن تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے شرف وعزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل وبرتری پاسکتے ہیں، اس لیے ان کو چاہیئے کہ اس کو اپنائیں اور اس کے مقتضا پر سب سے زیادہ عمل کریں۔