وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور انھوں نے کہا اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔
1- یعنی اپنے طور پر اللہ کی مشیت کا سہارا، یہ ان کی ایک بڑی دلیل ہے کیونکہ ظاہراً یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، نہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس کی مشیت، اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ ہر کام یقیناً اس کی مشیت ہی سے ہوتا ہے لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے جن کا اس نے حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس کام سے جو انسان اللہ کی مشیت سے کرتا ہے، انسان چوری، بدکاری، ظلم اور بڑے بڑے گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو یہ گناہ کرنے کی قدرت ہی نہ دے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لے، اس کے قدموں کو روک دے اس کی نظر سلب کرلے۔ لیکن یہ جبر کی صورتیں ہیں جب کہ اس نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اسے آزمایا جائے، اسی لیے اس نے دونوں قسم کے کاموں کی وضاحت کردی ہے، جن سے وہ راضی ہوتا ہے ان کی بھی اور جن سے ناراض ہوتا ہے، ان کی بھی۔ انسان دونوں قسم کے کاموں میں سے جو کام بھی کرے گا، اللہ اس کا ہاتھ نہیں پکڑے گا، لیکن اگر وہ کام جرم ومعصیت کا ہوگا تو یقیناً وہ اس سے ناراض ہوگا کہ اس نے اللہ کے دیئے ہوئے اختیار کا استعمال غلط کیا۔ تاہم یہ اختیار اللہ دنیا میں اس سے واپس نہیں لے گا، البتہ اس کی سزا قیامت والے دن دے گا۔