وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
اور یقیناً اگر ہم اسے کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو، اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو ضرور ہی کہے گا یہ میرا حق ہے اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر واقعی مجھے اپنے رب کی طرف واپس لے جایا گیا تو یقیناً میرے لیے اس کے پاس ضرور بھلائی ہے۔ پس ہم یقیناً ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا ضرور بتائیں گے جو کچھ انھوں نے کیا اور یقیناً ہم انھیں ایک سخت عذاب میں سے ضرور چکھائیں گے۔
1- یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لیے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا ناراضی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لیے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کررہا ہے اور تکلیفوں میں صابر کون ہے؟ 2- یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لیے ایسی ہی ہوگی۔