مَّا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ
تجھے نہیں کہا جائے گا مگر وہی جو ان رسولوں سے کہا گیا جو تجھ سے پہلے تھے اور بے شک تیرا رب یقیناً بڑی بخشش والا اور بہت دردناک عذاب والا ہے۔
* یعنی پچھلی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کے لیے جو کچھ کہا کہ یہ ساحر ہیں، مجنون ہیں، کذاب ہیں وغیرہ وغیرہ، وہی کچھ کفار مکہ نے بھی آپ (ﷺ) کو کہا ہے۔ یہ گویا آپ (ﷺ) کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ (ﷺ) کی تکذیب اور آپ (ﷺ) کی سحر، کذب اور جنون کی طرف نسبت، نئی بات نہیں ہے، ہر پیغمبر کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ﴾ (الذاريات: 53،52) دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کو توحید اور اخلاص کا جو حکم دیا گیا ہے، یہ وہی باتیں ہیں جو آپ (ﷺ) سے پہلے رسولوں کو بھی کہی گئی تھیں۔ اس لیے کہ تمام شریعتیں ان باتوں پر متفق رہی ہیں بلکہ سب کی اولین دعوت ہی توحید واخلاص تھی۔ (فتح القدیر)۔ ** یعنی ان اہل ایمان وتوحید کے لیے جو مستحق مغفرت ہیں۔ *** ان کے لیے جوکافر اور اللہ کے پیغمبروں کے دشمن ہیں۔ یہ آ یت بھی سورۂ حجرکی آیت ﴿نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمُ﴾ کی طرح ہے۔