وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اور اسی کی نشانیوں میں سے رات اور دن، اور سورج اور چاند ہیں، نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو اور اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔
1- یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کر سکیں، دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو، پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا۔ اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ اسی طرح سورج اور چاند کا اپنے اپنے وقت پر طلوع وغروب ہونا اور اپنے اپنے مدار پراپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم سے محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقیناً کوئی خالق اور مالک ہے۔ نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اورکائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے۔ اگر تدبیر و امرکا اختیار رکھنے والے، ایک سے زیادہ ہوتے تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سےکبھی نہیں چل سکتا تھا۔ 2- اس لیے کہ یہ بھی تمہاری اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں۔ 3- خَلَقَهُنَّ ، میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خَلَقَ هَذِهِ الأَرْبَعَةَ الْمَذْكُورَةَ کے مفہوم میں ہے، کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم مؤنث ہی کا ہے۔ یا اس کا مرجع شمس وقمر ہی ہیں اور بعض ائمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں، (فتح القدیر)۔