وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں۔
1- کیونکہ اس کی بات بھی نہیں مانی ، جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے ان تک پہنچائی تھی اور عبادت بھی اس کے لیے خالص نہیں کی بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کرلیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک یہودی عالم نبی (ﷺ) کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اللہ کی بابت (کتابوں میں) یہ بات پاتے ہیں کہ وہ (قیامت والے دن) آسمانوں کو ایک انگلی پر،زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور ثری (تری) کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں)۔ آپ ﹲ نے مسکرا کراس کی تصدیق فرمائی اور آیت ﴿وَمَا قَدَرُوا اللهَ﴾ کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۂ زمر) محدثین اور سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی جن صفات کا ذکرقرآن او احادیث صحیحہ میں ہے، (جس طرح اس آیت میں ہاتھ اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے) ان پر بلاکیف و تشبیہ اور بغیر تاویل وتحریف کے ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو مجرد غلبہ وقوت کے مفہوم میں لینا صحیح نہیں ہے۔ 2- اس کی بابت بھی حدیث میں آتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ [ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الأَرْض ] (میں بادشاہ ہوں۔ زمین کے بادشاہ (آج) کہاں ہیں؟ (حوالۂ مذکورہ)۔