أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
خبردار! خالص دین صرف اللہ ہی کا حق ہے اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا اور حمایتی بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں، اچھی طرح قریب کرنا۔ یقیناً اللہ ان کے درمیان اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ہو، بہت ناشکرا ہو۔
1- یہ اسی اخلاص عبادت کی تاکید ہے جس کا حکم اس سے پہلی آیت میں ہے کہ عبادت واطاعت صرف ایک اللہ ہی کا حق ہے، نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا جائز ہے۔ نہ اطاعت ہی کا اس کے علاوہ کوئی حق دار ہے۔ البتہ رسول کی اطاعت کو چونکہ خود اللہ نے اپنی ہی اطاعت قرار دیا ہے اس لئے رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے، کسی غیر کی نہیں۔ تاہم عبادت میں یہ بات بھی نہیں۔ اس لئے عبادت اللہ کے سوا، کسی بڑے سے بڑے رسول کی بھی جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ عام افراد واشخاص کی، جنہیں لوگوں نے اپنے طور پر خدائی اختیارات کا حامل قرار دے رکھا ہے۔ ﴿مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ﴾ اللہ کی طرف سے اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ 2- اس سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ ہی کو خالق، رازق اور مدبر کائنات مانتے تھے۔ پھر وہ دوسروں کی عبادت کیوں کرتے تھے؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے تھے جو قرآن نے یہاں نقل کیا ہے کہ شاید ان کے ذریعے سے ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہو جائے یا اللہ کے ہاں یہ ہماری سفارش کر دیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿هَؤُلاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ﴾ (يونس: 18) یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ 3- کیوں کہ دنیا میں تو کوئی بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ شرک کا ارتکاب کر رہا ہے یا وہ حق پر نہیں ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ فرمائے گا اور اس کے مطابق جزا وسزا دے گا۔ 4- یہ جھوٹ ہی ہے کہ ان معبودان باطلہ کے ذریعے سے ان کی اللہ تک رسائی ہو جائے گی یا یہ ان کی سفارش کریں گے اور اللہ کو چھوڑ کر بے اختیار لوگوں کو معبود سمجھنا بھی بہت بڑی ناشکری ہے۔ ایسے جھوٹوں اور ناشکروں کو ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے؟