وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو) لے اور اسے مار دے اور قسم نہ توڑ، بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا، اچھا بندہ تھا۔ یقیناً وہ بہت رجوع کرنے والا تھا۔
1- بیماری کے ایام میں خدمت گزار بیوی کو کسی بات سے ناراض ہو کر حضرت ایوب (عليہ السلام) نے اسے سو کوڑے مارنے کی قسم کھا لی تھی، صحت یاب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ سو تنکوں والی جھاڑو لے کر ایک مرتبہ اسے مار دے، تیری قسم پوری ہو جائے گی۔ اس امر میں علما کا اختلاف ہے کہ یہ رعایت صرف حضرت ایوب (عليہ السلام) کے ساتھ خاص ہے یا دوسرا کوئی شخص بھی اس طرح سو کوڑوں کی جگہ سو تنکوں والی جھاڑو مار کر حانث ہونے سے بچ سکتا ہے؟ بعض پہلی رائے کے قائل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اگر نیت ضرب شدید کی نہ کی ہو تو اس طرح عمل کیا جا سکتا ہے۔ (فتح القدیر) ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے بھی ایک معذور کمزور زانی کو سو کوڑوں کی جگہ سو تنکوں والی جھاڑو مار کر سزا دی۔ (مسند أحمد 5/222 ابن ماجہ، كتاب الحدود، باب الكبير والمريض يجب عليه الحد، صححه الألباني) جس سے مخصوص صورتوں میں اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔