كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا، ان میں سے کچھ مومن ہیں اور ان کے اکثر نافرمان ہیں۔
1- اس آیت میں امت مسلمہ کو (خیرامت) قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کر دی گئی ہے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو (خیرامت) ہے، بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اس نکتے کی وضاحت مقصود معلوم ہوتی ہے کہ جو امربالمعروف ونہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے ﴿كَانُوا لا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ﴾ ( المائدۃ: 79 ) ”وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے“ اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اکثر علما کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے یعنی علما کے ذمے داری ہے کہ وہ یہ فرض ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف ومنکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں۔ ان کے فریضئہ تبلیغ ودعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد امت کی طرف سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔ 2- جیسے عبداللہ بن سلام ! وغیرہ جو مسلمان ہو گئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لئے ”مِنْهُمْ“ میں مِنْ، تَبْعِيض کے لئے ہے۔