رُدُّوهَا عَلَيَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ
انھیں میرے پاس واپس لاؤ، پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
1- اس ترجمے کی رو سے أَحْبَبْتُ، بمعنی آثَرْتُ (ترجیح دینا) اور عَنْ بمعنی عَلَى ہے۔ اور تَوَارَتْ کا مرجع شَمْسٌ ہے جو آیت میں پہلے مذکور نہیں ہے، لیکن قرینہ اس پر دال ہے۔ اس تفسیر کی رو سے اگلی آیت میں۔ ﴿مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالأَعْنَاقِ﴾ کا ترجمہ بھی ذبح کرنا ہوگا یعنی مَسْحًا بِالسَّيْفِ کا مفہوم۔ مطلب ہوگا کہ گھوڑوں کے معاینہ میں حضرت سلیمان (عليہ السلام) کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت وہ کرتے تھے۔ جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا وارفتہ اور گم ہو گیا کہ سورج پردۂ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفے سے غافل رہا۔ چنانچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نےسارے گھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے۔ امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ دیگر بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیر کی ہے۔ اس کی رو سے عَنْ، أَجْلٌ کے معنی میں ہے أَيْ : لأَجْلِ ذِكْرِ رَبِّي، یعنی رب کی یاد کی وجہ سے میں ان گھوڑوں سے محبت رکھتا ہوں۔ یعنی اس کے ذریعے سے اللہ کی راہ میں جہاد ہوتا ہے۔ پھر ان گھوڑوں کو دوڑایا حتیٰ کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ انہیں دوبارہ طلب کیا اور پیار ومحبت سے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا خَيْرٌ، قرآن میں مال کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ لفظ گھوڑو ں کے لئے آیا ہے۔ تَوَارَتْ کا مرجع گھوڑے ہیں۔ امام ابن جریر طبری نے اس دوسری تفسیر کو ترجیح دی ہے اور یہی تفسیر متعدد وجوہ سےصحیح لگتی ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ۔