سورة فاطر - آیت 43

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

زمین میں تکبر کی وجہ سے اور بری تدبیر کی وجہ سے اور بری تدبیر اپنے کرنے والے کے سوا کسی کو نہیں گھیرتی۔ اب یہ پہلے لوگوں سے ہونے والے طریقے کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ پس تو نہ کبھی اللہ کے طریقے کو بدل دینے کی کوئی صورت پائے گا اور نہ کبھی اللہ کے طریقے کو پھیر دینے کی کوئی صورت پائے گا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی آپ (ﷺ) کی نبوت پر ایمان لانے کے بجائے انکار و مخالفت کا راستہ محض استکبار اور سرکشی کی وجہ سے اختیار کیا۔ 2- اور بری تدبیر یعنی حیلہ، دھوکہ اور عمل قبیح کی وجہ سے کیا۔ 3- یعنی لوگ مکر وحیلہ کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ بری تدبیر کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور اس کا وبال بالآخر مکر وحیلہ کرنے والوں پر ہی پڑتا ہے۔ 4- یعنی کیا یہ اپنے کفروشرک، رسول (ﷺ) کی مخالفت اور مومنوں کو ایذائیں پہنچانے پر مصر رہ کر اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں بھی اس طرح ہلاک کیا جائے، جس طرح پچھلی قومیں ہلاکت سے دوچار ہوئیں؟ 5- بلکہ یہ اسی طرح جاری ہے اور ہر مکذب (جھٹلانے والے) کا مقدر ہلاکت ہے یا بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے عذاب کو رحمت سے بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ 6- یعنی کوئی اللہ کے عذاب کو دور کرنے والا یا اس کا رخ پھیرنے والا نہیں ہے یعنی جس قوم کو اللہ عذاب سے دوچار کرنا چاہے، کوئی اس کا رخ کسی اور قوم کی طرف پھیر دے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔ مطلب اس سنت اللہ کی وضاحت سے مشرکین عرب کو ڈرانا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے، وہ کفروشرک چھوڑ کر ایمان لے آئیں، ورنہ وہ اس سنت الٰہی سے بچ نہیں سکتے، دیر سویر اس کی زد میں آکر رہیں گے، کوئی اس قانون الٰہی کو بدلنے پر قادر ہے اور نہ عذاب الٰہی کو پھیرنے پر۔