إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
بے شک اللہ ہی آسمانوں کو اور زمین کو تھامے رکھتا ہے، اس سے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹیں اور یقیناً اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے بعد کوئی ان دونوں کو نہیں تھامے گا، بے شک وہ ہمیشہ سے نہایت برد بار، بے حد بخشنے والا ہے۔
1- كَرَاهَةَ أَنْ تَزُولا لِئَلا تَزُولا یہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت وصنعت کا بیان ہے۔ بعض نے کہا، مطلب یہ ہے کہ ان کے شرک کا اقتضا ہے کہ آسمان وزمین اپنی حالت پر برقرار نہ رہیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں۔ جیسے آیت۔ ﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا﴾ (مريم: 90 - 91) کا مفہوم ہے۔ 2- یعنی یہ اللہ کے کمال قدرت کے ساتھ اس کی کمال مہربانی بھی ہے کہ وہ آسمان وزمین کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں اپنی جگہ سے ہلنے اور ڈولنے نہیں دیتا ہے، ورنہ پلک جھپکتے میں دنیا کا نظام تباہ ہوجائے۔ کیونکہ اگر وہ ا نہیں تھامے نہ رکھے اور انہیں اپنی جگہ سے پھیر دے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان کو تھام لے إِنْ أَمْسَكَهُمَا میں إِنْ نافیہ ہے۔ اللہ نے اپنے اس احسان اور نشانی کا تذکرہ دوسرے مقامات پر بھی فرمایا ہے مثلاً ﴿وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الأَرْضِ إِلا بِإِذْنِهِ﴾ (الحج: 65) اور ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ بِأَمْرِهِ﴾ (الروم: 25) ”اسی نے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا ہوا ہے، مگر جب اس کا حکم ہوگا“۔ ”اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان وزمین اس کے حکم سے قائم ہیں“۔ 3- اتنی قدرتوں کے باوجود وہ حلیم ہے۔ اپنے بندوں کو دیکھتا ہے کہ وہ کفر وشرک اور نافرمانی کر رہے ہیں، پھر بھی وہ ان کی گرفت میں جلدی نہیں کرتا، بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور غفور بھی ہے، کوئی تائب ہو کر اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے، توبہ واستغفار وندامت کا اظہار کرتا ہے تو وہ معاف فرما دیتا ہے۔