سورة فاطر - آیت 32

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے اور ان میں سے کوئی نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے، اللہ کے حکم سے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- کتاب سے مراد قرآن اور چنے ہوئے بندوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ یعنی اس قرآن کا وارث ہم نے امت محمدیہ کو بنایا ہے جسے ہم نے دوسری امتوں کے مقابلے میں چن لیا اور اسے شرف وفضل سے نوازا۔ یہ تقریباً وہی مفہوم ہے جو آیت ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾ (البقرة: 143) کا ہے۔ 2- امت محمدیہ کی تین قسمیں بیان فرمائیں۔ یہ پہلی قسم ہے، جس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بعض فرائض میں کوتاہی اور بعض محرمات کا ارتکاب کرلیتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس لئے کہا کہ وہ اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے کو اس اعلیٰ درجے سے محروم کرلیں گے جو باقی دو قسموں کو حاصل ہوں گے۔ 3- یہ دوسری قسم ہے، یعنی ملے جلے عمل کرتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو فرائض کے پابند، محرمات کے تارک تو ہیں لیکن کبھی مستحبات کا ترک اور بعض محرمات کا ارتکاب بھی ان سے ہوجاتا ہے یا وہ ہیں جو نیک تو ہیں لیکن پیش پیش نہیں ہیں۔ 4- یہ وہ ہیں جو دین کے معاملے میں پچھلے دونوں سے سبقت کرنے والے ہیں۔ 5- یعنی کتاب کا وارث کرنا اور شرف وفضل میں ممتاز (مصطفیٰ) کرنا۔