إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ
اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار نہیں سنیں گے اور اگر وہ سن لیں تو تمھاری درخواست قبول نہیں کرینگے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکار کردیں گے اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا۔
1- یعنی اگر تم انہیں مصائب میں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ وہ جمادات ہیں یامنوں مٹی کے نیچے مدفون۔ 2- یعنی اگر بالفرض وہ سن بھی لیں تو بےفائدہ، اس لئے کہ وہ تمہاری التجاؤں کے مطابق تمہارا کام نہیں کرسکتے۔ 3- اور کہیں گے ﴿مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ﴾ (يونس: 28) ”تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے“۔ ﴿إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ﴾ (يونس: 29) ”ہم تو تمہاری عبادت سے بےخبر تھے“۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، وہ سب پتھر کی مورتیاں ہی نہیں ہوں گی، بلکہ ان میں عاقل (ملائکہ، جن، شیاطین اور صالحین) بھی ہوں گے۔ تب ہی تو یہ انکار کریں گے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی حاجت براری کے لئے پکارنا شرک ہے۔ 4- اس لئے کہ اس جیسا کامل علم کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہی تمام امور کی کنہ اور حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے جس میں ان پکارے جانے والوں کی بےاختیاری، پکار کو نہ سننا اور قیامت کے دن اس کا انکار کرنا بھی شامل ہے۔