قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
کہہ دے بے شک میرا رب رزق فراخ کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے اور اس کے لیے تنگ کردیتا ہے اور تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔
1- پس وہ کبھی کافر کو بھی خوب مال دیتا ہے، لیکن کس لئے؟ استدراج کے طور پر، اور کبھی مومن کو تنگ دست رکھتا ہے، کس لئے؟ اس کے اجروثواب میں اضافے کے لئے۔ اس لئے مجردمال کی فراوانی اس کی رضا کی اور اس کی کمی، اس کی ناراضی کی دلیل نہیں ہے۔ یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔ 2- إِخْلافٌ کے معنی ہیں، عوض اور بدلہ دینا۔ یہ بدلہ دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں تو یقینی ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ [ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ ] (صحيح بخاری سورة هود) ”تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا“ (یعنی بدلہ دوں گا) دو فرشتے ہر روز اعلان کرتے ہیں، ایک کہتا ہے [ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ] اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کے مال کو ضائع کردے“ دوسرا کہتا ہے، [ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا ]”اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما۔ (البخاری، كتاب الزكاة، باب ، ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى﴾] 3- کیونکہ ایک بندہ اگر کسی کو کچھ دیتا ہے تو اس کا یہ دینا اللہ تعالیٰ کی توفیق وتیسیر اور اس کی تقدیر سے ہی ہے۔ حقیقت میں دینے والا اس کا رازق نہیں ہے، جس طرح بچوں کا باپ، بچوں کا، یا بادشاہ اپنے لشکر کا کفیل کہلاتا ہے حالانکہ امیر اور مامور بچے اور بڑے سب کا رازق حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کا خالق بھی ہے۔ اس لئے جو شخص اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ ایسے مال میں تصرف کرتا ہے جو اللہ ہی نے اسے دیا ہے، پس درحقیقت رازق بھی اللہ ہی ہوا۔ تاہم یہ اس کا مزید فضل وکرم ہے کہ اس کے دیئے ہوئے مال میں اس کی مرضی کے مطابق تصرف (خرچ کرنے) پر وہ اجر وثواب بھی عطا فرماتا ہے۔