وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا ۚ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور وہ لوگ جو کمزور سمجھے گئے، ان لوگوں سے جو بڑے بنے تھے، کہیں گے بلکہ (تمھاری) رات اور دن کی چالبازی نے (ہمیں روکا) جب تم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے لیے شریک ٹھہرائیں۔ اور وہ ندامت کو چھپائیں گے جب عذاب دیکھیں گے اور ہم ان لوگوں کی گردنوں میں جنھوں نے کفر کیا، طوق ڈال دیں گے۔ انھیں بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی کا جو وہ کیا کرتے تھے۔
* یعنی ہم مجرم تو تب ہوتے، جب ہم اپنی مرضی سے پیغمبروں کی تکذیب کرتے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تم رات دن ہمیں گمراہ کرنے پر اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کا شریک ٹھہرانے پر آمادہ کرتے رہے، جس سے بالآخر ہم تمہارے پیچھے لگ کر ایمان سے محروم رہے۔ ** یعنی ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کریں گے لیکن دل میں دونوں ہی فریق اپنے اپنے کفر پر شرمندہ ہوں گے۔ لیکن شماتت اعدا کی وجہ سے ظاہر کرنے سے گریز کریں گے۔ *** یعنی ایسی زنجیریں جو ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھیں گی۔ **** یعنی دونوں کو ان کے عملوں کی سزا ملے گی، لیڈروں کو ان کے مطابق، اور ان کے پیچھے چلنے والوں کو ان کے مطابق، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَكِنْ لا تَعْلَمُونَ﴾ (الأعراف: 38) یعنی ”ہر ایک کو دگنا عذاب ہوگا“۔