يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اے اہل کتاب! تم کیوں حق کو باطل سے خلط ملط کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو۔
1- اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشاندہی کرکے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ پہلا جرم حق وباطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے۔ دوسرا کتمان حق۔ یعنی نبی کریم (ﷺ) کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے، انہیں لوگوں سے چھپانا، تاکہ نبی (ﷺ) کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے۔ اور یہ دونوں جرم جانتے بوجھتے کرتے تھے جس سے ان کی بدبختی دو چند ہوگئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورۂ بقرہ میں بھی کی گئی ہے ﴿وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة: 42) ”حق کو باطل کے ساتھ مت ملاؤ اور حق مت چھپاؤ اور تم جانتے ہو۔“ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے، جس میں یہودو نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنو نضیر، اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کابراہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی (ﷺ) کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔