وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
اور وہ لوگ جنھیں علم دیا گیا ہے، دیکھتے ہیں کہ جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہی حق ہے اور وہ اس کا راستہ دکھاتا ہے جو سب پر غالب ہے، تمام خوبیوں والا ہے۔
1- یہاں رویت سے مراد رویت قلبی یعنی علم یقینی ہے، محض رویت بصری (آنکھ کا دیکھنا) نہیں۔ اہل علم سے مراد صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ، یا مومنین اہل کتاب یا تمام ہی مومنین ہیں یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔ 2- یہ عطف ہےحق پر، یعنی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس اللہ کا راستہ ہے جو کائنات میں سب پر غالب ہے اور اپنی مخلوق میں محمود (قابل تعریف) ہے۔ اور وہ راستہ کیا ہے؟ توحید کا راستہ جس کی طرف تمام انبیا علیہم السلام اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔