سورة آل عمران - آیت 65

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ جب کہ تورات اور انجیل تو نازل ہی اس کے بعد کی گئی ہیں، تو کیا تم سمجھتے نہیں۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) ان کے دین پر تھے، حالانکہ تورات، جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے،اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے، دونوں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں، پھر حضرت ابراہیم (عليه السلام) یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) اور موسیٰ (عليه السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا اور حضرت ابراہیم وعیسیٰ علیہما السلام کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا۔ (قرطبی)