وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
* فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار ومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کر دیا۔ نبی (ﷺ) چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینے تک جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) نے فرمایا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں؟ بلکہ میں اللہ اور رسول (ﷺ) کو پسند کرتی ہوں . یہی بات دیگر ازواج مطہرات (رضی الله عنہ) ن نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہ (ﷺ) کو چھوڑ کر دنیا کی عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب) اس وقت آپ (ﷺ) کے حبالۂ عقد میں 9 بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ۔ (رضی الله عنہن) اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، میمونہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ (رضی الله عنہن)۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کر لے، پھر تو یقیناً طلاق ہوجائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علما کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی کو اختیار نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات (رضی الله عنہن) نے علیحدگی کے بجائے حرم رسول (ﷺ) میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا۔ (صحيح بخاری ، كتاب الطلاق ، باب من خير نساءه ، مسلم باب بيان أن تخيير امرأته لا يكون طلاقا إلا بالنية)۔