قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
کہہ دے اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان برابر ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے۔ پھر اگر وہ پھر جائیں تو کہہ دو گواہ رہو کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں۔
1- کسی بت کو نہ صلیب کو، نہ آگ کو اور نہ کسی اور چیز کو، بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ 2- یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہما السلام کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ گھڑ رکھا ہے یہ غلط ہے، وہ رب نہیں ہیں انسان ہی ہیں۔ دوسرا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے اپنے احبار ورہبان کو حلال وحرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے، یہ بھی ان کو رب بنانا ہے جیسا کہ آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ﴾ اس پر شاہد ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے، حلال وحرام کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر ) 3- صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ (ﷺ) نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اور اسے کہاکہ تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دہرا اجر ملے گا، ورنہ ساری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ [ فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، يَؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ ] (صحيح بخاري، كتاب بدء الوحي) ”اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا۔ اسلام لے آ، اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تو نے قبول اسلام سے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہی ہو گا“۔ کیونکہ رعایا کے عدم قبول اسلام کاسبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت میں مذکور تین نکات یعنی (1) صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ (2) اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ (3) اورکسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا وہ کلمۂ سواء ہے جس پر اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ لہٰذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان ہی تین نکات اور اس کلمۂ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس وبنیاد بنانا چاہئے۔