سورة الروم - آیت 5

بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کی مدد سے، وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے اور وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- عہدرسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک فارس (ایران) کی، دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی یعنی اہل کتاب تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ دونوں غیر اللہ کے پجاری تھے۔ جبکہ مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں، اس لیے کہ عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی ورسالت پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ نبی (ﷺ) کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی، جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا، اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں یہ پیش گوئی کی گئی کہ بِضْعِ سِنِينَ کے اندر رومی پھر غالب آجائیں گے اور غالب، مغلوب اور مغلوب غالب ہو جائیں گے۔ بظاہر اسباب یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کےاس فرمان کی وجہ سےیقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لئےحضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) نےابوجہل سے یہ شرط باندھ لی کہ رومی پانچ سال کےاندر دوبارہ غالب آجائیں گے۔ نبی (ﷺ) کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا کہ بِضْعٌ کا لفظ تین سےدس تک کےعدد کے لئے استعمال ہوتا ہے تم نے 5 سال کی مدت کم رکھی ہے، اس میں اضافہ کر لو۔ چنانچہ آپ (ﷺ) کی ہدایت کے مطابق حضرت ابوبکر (رضی الله عنہ) نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کہ رومی 9 سال کی مدت کےاندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آگئے، جس سے یقیناً مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی، (ترمذی، تفسیر سورۃ الروم) بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی، جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا،اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ نزدیک کی زمین سے مراد، عرب کی زمین کے قریب کے علاقے ہیں، یعنی شام وفلسطین وغیرہ، جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔