سورة القصص - آیت 82

وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جن لوگوں نے کل اس کے مرتبے کی تمنا کی تھی انھوں نے اس حال میں صبح کی کہ کہہ رہے تھے افسوس! اب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور تنگ کردیتا ہے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہم پر احسان کیا تو وہ ضرور ہمیں دھنسا دیتا، افسوس! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پاتے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مکان سے مراد وہ دنیاوی مرتبہ ومنزلت ہے جو دنیا میں کسی کو عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، امس ، گزشتہ کل کو کہتے ہیں۔ مطلب زمانہ قریب ہے۔ وَيْكَأَنَّ، اصل میں ”وَيْلَكَ اعْلَمْ أَنَّ“ ہے اس کو مخفف کرکے وَيْكَأَنَّ ، بنا دیا گیا ہے ، یعنی وَيْكَ أَنَّ۔ یعنی افسوس یا تعجب ہے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ . . . . بعض کے نزدیک یہ أَلَمْ تَرَ کے معنی میں ہے، (ابن کثیر) جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت وحشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دے دیتا ہے اور کسی کو کم۔ اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فراوانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی ناراضی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہی ہے۔ 2- یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔ 3- یعنی قارون نے دولت پاکر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راستہ اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا؟ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔