قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ
اس نے کہا مجھے تو یہ ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے، جو میرے پاس ہے۔ اور کیا اس نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ اس سے پہلے کئی نسلیں ہلاک کرچکا ہے جو اس سے زیادہ طاقتور اور زیادہ جماعت والی تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔
1- ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب وتجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اس کا نتیجہ اور ثمر ہے، اللہ کے فضل وکرم سے اس کا کیا تعلق ہے؟ دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے (جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے ﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ﴾ (القصص۔ 78) أَيْ: عَلَى عِلْمٍ مِنَ اللهِ یعنی ”مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا“۔ ایک مقام پر ہے جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے هَذَا لِي (حم السجدة: 50) أَيْ: هَذَا أَسْتَحِقُّهُ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔ 2- یعنی قوت اور مال کی فراوانی ، یہ فضیلت کا باعث نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ وبرباد نہ ہوتیں۔ اس لیے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔ 3- یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے وہ مستحق عذاب قرار دے دیئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔