وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور اس نے اپنی رحمت ہی سے تمھارے لیے رات اور دن کو بنایا ہے، تاکہ اس میں آرام کرو اور تاکہ اس کا کچھ فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔
1- دن اور رات، یہ دونوں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کرسکیں۔ اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقے سے سونے کا موقع نہ پاتا، جب کہ معاشی تگ ودو اور کاروبار جہاں کے لیے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ جاگ کر مصروف تگ وتاز ہوتے، تو سونے والوں کے آرام وراحت میں خلل پڑتا، نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے، جب کہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون وتناصر کا محتاج ہے اس لیے اللہ نے رات کو تاریک کر دیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کی نیند اور آرام میں مخل نہ ہوسکے۔ اسی طرح دن کو روشن بنایا تاکہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار بہتر طریقے سے کرسکے۔ دن کی یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ، اسے ہر شخص بآسانی سمجھتا اور اس کا ادراک رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کے حوالے سے اپنی توحید کا اثبات فرمایا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ دن اور رات کا یہ نظام ختم کرکے ہمیشہ کے لیے تم پر رات ہی مسلط کر دے۔ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دے؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لیے دن ہی دن رکھے تو کیا کوئی تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کرسکتا ہے، جس میں تم آرام کرسکو؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن اور رات کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ رات آتی ہے تو دن کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور تمام مخلوق آرام کر لیتی ہے اور رات جاتی ہے تو دن کی روشنی سے کائنات کی ہر چیز نمایاں اور واضح تر ہو جاتی ہے اور انسان کسب ومحنت کے ذریعے سے اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرتا ہے۔ 2- یعنی اللہ کی حمد وثنا بھی بیان کرو (یہ زبانی شکر ہے) اور اللہ کی دی ہوئی دولت، صلاحیتوں اور توانائیوں کو اس کے احکام وہدایات کے مطابق استعمال کرو۔ (یہ عملی شکر ہے)