وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ
اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نے اپنے سوا تمھارے لیے کوئی معبود نہیں جانا، تو اے ہامان! میرے لیے مٹی پر آگ جلا، پھر میرے لیے ایک اونچی عمارت بنا، تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں اور بے شک میں یقیناً اسے جھوٹوں میں سے گمان کرتا ہوں۔
1- ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں۔ کیونکہ ظلم کے معنی ہیں ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحَلِّهِ“ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت ومغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوش حالی اور مال واسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ عارضی کامیابی اہل کفر وشرک کو بھی دنیا میں مل جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان سے کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوش حالی وفراوانی۔ 2- یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر۔ ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔ 3- یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے؟ 4- یعنی موسیٰ (عليہ السلام) جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالنہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔